(مسلمانوں
کی تاریخ حکمرانی سے چند نمونے)
اسلام سے قبل دنیا
اندھیری تھی، ہر طرف ظلم وجور کا دور دورہ تھا، امن وامان نام کی
کوئی چیز موجود نہ تھی؛ کبھی رنگ ونسل کے نام پر، کبھی
زبان و تہذیب کے عنوان سے اور کبھی وطنیت و قومیت کی
آڑ میں انسانیت کو اتنے ٹکڑوں میں بانٹ دیاگیا
تھااور ان ٹکڑوں کو باہم اس طرح ٹکرایا گیا تھا کہ آدمیت چیخ
پڑی تھی، اس وقت کی تاریخ کا آپ مطالعہ کریں گے تو
اندازہ ہوگا کہ پوری دنیا بدامنی و بے چینی سے لبریز
تھی، وہ پسماندہ علاقہ ہو یا ترقی یافتہ اور مہذب دنیا،
روم وافرنگ ہو یا ایران وہندوستان، عجم کا لالہ زار ہو یا عرب
کے صحراء وریگزار؛ ساری دنیا اس آگ کی لپیٹ میں
تھی اسلام سے قبل بہت سے مذہبی پیشواؤں اور نظام اخلاق کے
علمبرداروں نے اپنے اپنے طورپر امن ومحبت کے گیت گائے اور اپنے اخلاقی
مواعظ وخطبات سے اس آگ کو سرد کرنے کی کوشش کی جس کے خوشگوار نتائج بھی
سامنے آئے مگر اس عالمی آتش فشاں کو پوری طرح ٹھنڈا نہیں کیا
جاسکا۔
اسلام نے پہلی
بار دنیا کو امن ومحبت کا باقاعدہ درس دیا اوراس کے سامنے ایک
پائیدار ضابطہٴ اخلاق پیش کیا جس کا نام ہی ”اسلام“
رکھا گیا یعنی دائمی امن وسکون اور لازوال سلامتی
کا مذہب“ یہ امتیاز دنیا کے کسی مذہب کو حاصل نہیں،
اسلام نے مضبوط بنیادوں پر امن وسکون کے ایک نئے باب کاآغاز کیا
اور پوری علمی و اخلاقی قوت اور فکری بلندی کے ساتھ
اس کو وسعت دینے کی کوشش کی، آج دنیا میں امن وامان
کا جو رجحان پایا جاتا ہے اور ہر طبقہ اپنے اپنے طورپر کسی گہوارئہ
سکون کی تلاش میں ہے یہ بڑی حد تک اسلامی تعلیمات
کی دین ہے۔
اسلام میں امن سکون کی ہدایات
جس معاشرہ کا شیرازئہ
امن بکھرتا ہے اس کی پہلی زد انسانی جان پر پڑتی
ہے۔ اسلام سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی
مگراسلام نے انسانی جان کو وہ عظمت و احترام بخشا کہ ایک انسان کے قتل
کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ قرآن کریم میں
ہے:
* من
اجل ذلک کتبنا علی بنی اسرائیل انہ من قتل نفسا بغیرنفس
آو فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا ومن احیاہا فکأنما احیا
الناس جمیعا (المائدہ:۳۲)
ترجمہ: ”اسی
لئے ہم نے بنی اسرائیل کے لئے یہ حکم جاری کیا کہ
جو شخص کسی انسانی جان کو بغیر کسی جان کے بدلے یا
زمینی فساد برپا کرنے کے علاوہ کسی اور سبب سے قتل کرے اس نے گویا
ساری انسانیت کاقتل کیا اور جس نے کسی انسانی جان کی
عظمت واحترام کو پہچانا اس نے گویا پوری انسانیت کو نئی
زندگی بخشی۔“
انسانی جان کا
ایسا عالم گیر اور وسیع تصور اسلام سے قبل کسی مذہب و تحریک
نے پیش نہیں کیا تھا۔
* اسی آفاقی تصور کی
بنیاد پر قرآن اہل ایمان کو امن کا سب سے زیادہ مستحق اور
علمبردار قرار دیتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فای
الفریقین احق بالامن ان کنتم تعلمون، الذین آمنوا ولم یلبسوا
ایمانہم بظلم اولئک لہم الامن وہم مہتدون (الانعام:۸۱،۸۲)
ترجمہ: ”دونوں فریقوں
(مسلم اور غیرمسلم) میں امن کا کون زیادہ حقدار ہے؛ اگر تم
جانتے ہو تو بتاؤ جو لوگ صاحب ایمان ہیں اور جنھوں نے اپنے ایمان
کو ظلم وشرک کی ہرملاوٹ سے پاک رکھا ہے امن انہی لوگوں کے لئے ہے اور
وہی حق پر بھی ہیں۔“
* اسلام قتل و خونریزی کے
علاوہ فتنہ انگیزی، دہشت گردی اور جھوٹی افواہوں کی
گرم بازاری کو بھی سخت ناپسند کرتا ہے وہ اس کو ایک جارحانہ اور
وحشیانہ عمل قرار دیتاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ
ہے:
ولا
تفسدوا فی الارض بعد اصلاحہا (الاعراف:۵۶)
ترجمہ: ”اصلاح کے
بعد زمین میں فساد برپا مت کرو“
ان
اللّٰہ لایحب المفسدین (القصص:۷۷)
ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ
فسادیوں کو پسند نہیں کرتے۔۔“
اس مضمون کی
متعدد آیات قرآن پاک میں موجود ہیں۔
* امن ایک بہت بڑی نعمت
ہے۔ قرآن نے اس کو عطیہٴ الٰہی کے طور پر ذکر کیا
ہے۔
فلیعبدوا
رب ہذا البیت الذی اطعمہم من جوع وآمنہم من خوف (القریش:۴،۵)
ترجمہ: ”اہل قریش
کو اس گھر کے رب کی عبادت کرنی چاہئے جس رب نے انہیں بھوک سے
بچایا کھانا کھلایا اور خوف و ہراس سے امن دیا“
اسلام میں امن
کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ پیغمبر صلی
اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت (حرم مکہ) کو گہوارئہ امن قرار دیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
من
دخلہ کان آمنا․
ترجمہ: ”اس کے سایہ
میں داخل ہونے والا ہر شخص صاحب امان ہوگا۔“
احادیث میں
بھی زمین میں امن وامان برقرار رکھنے کے سلسلے میں متعدد
ہدایات موجود ہیں مثلاً:
* رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ”صاحب ایمان“ کی علامت یہ قرار دی ہے کہ اس سے کسی
انسان کو بلاوجہ تکلیف نہ پہنچے - حضرت ابوہریرہ روایت
کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
المسلم
من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ والموٴمن من آمنہ الناس علی
دمائہم واموالہم (ترمذی: حدیث نمبر ۲۶۲۷)
ترجمہ: ”مسلمان وہ
ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے جس سے
لوگوں کے جان ومال کو کوئی خطرہ نہ ہو۔“
* ایک اورموقعہ پر ظلم وتنگ نظری
سے بچنے کی تاکیدکرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اتقوا
الظلم فان الظلم ظلمات یوم القیامة واتقوا الشح فان الشح اہلک من کان
قبلکم حملہم ان سفکوا دمائہم واستحلوا محارہم (مسلم: حدیث نمبر۲۵۷۸)
ترجمہ: ”ظلم سے بچو
اس لئے کہ ظلم قیامت کی بدترین تاریکیوں کا ایک
حصہ ہے، نیز بخل وتنگ نظری سے بچو اس چیز نے تم سے پہلے بہتوں
کو ہلاک کیاہے اسی مرض نے ان کو خونریزی اورحرام کو حلال
جاننے پر آمادہ کیا۔“
*بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے:
”رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛ کہ اللہ کی قسم!
مومن نہیں ہوسکتا، اللہ کی قسم مومن نہیں ہوسکتا، کسی نے
دریافت کیا کہ یا رسول اللہ (…) کون مومن نہیں ہوسکتا؟
فرمایا کہ جس کے شر سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔“ (بخاری:
حدیث نمبر۶۰۱۶)
* حضرت جریر بن عبداللہ روایت
کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا یرحم
اللّٰہ من لا یحرم الناس (بخاری: حدیث نمبر ۷۳۷۶)
ترجمہ: ”اللہ اس شخص
پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔“
* ایک موقعہ پر ارشاد فرمایا:
خیرکم
من یرجی خیرہ یومن شرہ؛ وشرکم من لا یرجی خیرہ
ولا یومن شرہ․
* ایک اور موقعہ پر آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے عصبیت وتنگ نظری کی مذمت کرتے ہوئے
فرمایا:
”وہ ہم میں سے نہیں؛ جو عصبیت کی طرف بلائے اور جو
عصبیت کی بناد پر قتال کرے“ (ابوداؤد: کتاب الآداب، باب العصبة، حدیث
نمبر ۱۵۲۱)
* نیز اہل معاہدہ اور کمزوروں پر
ظلم کی نکیر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
الا من
ظلم معاہدا او انتقض او کلفہ فوق طاقتہ او اخذ منہ شیئا بغیر طیب
نفس فانا حجیجہ یوم القیامة ․ (ابوداؤد:کتاب الخراج والامارة: حدیث
نمبر ۳۰۵۲)
ترجمہ: ”خبردار! جو
کسی معاہد پر کوئی ظلم کرے گا، یا اس کے حقوق میں کمی
کرے گا، یا طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈالے گا، یا اس کی
مرضی کے بغیراس سے کوئی چیز حاصل کرے گا؛ تو قیامت
کے دن میں خود اس کے خلاف دعویٰ پیش کروں گا۔“
* اسی طرح ایک موقعہ پر ارشاد
فرمایا:
”جس نے کسی
معاہد (ذمی غیرمسلم) کو قتل کیا؛ وہ جنت کی خوشبو سے بھی
محروم رہے گا۔“ (مسند احمد، حدیث نمبر:۲۰۴۶۴، ابن ماجہ کتاب الدیات: حدیث
نمبر ۲۶۸۶، نسائی باب القسامہ، حدیث:
۴۷۵۲)
اس طرح کی
متعدد روایات کتب احادیث میں موجود ہیں جن میں ظلم
وجبر سے بچنے، پرامن زندگی گذارنے، دوسروں کے حقوق کی ادائیگی،
فتنہ وشرانگیزی سے اجتناب اور خیر کی اشاعت، عمل خیر
میں زیادہ سے زیادہ شرکت، روئے زمین میں ایک
امن پسند خوشگوار اور مثبت ماحول کی تشکیل، عام انسانوں کے ساتھ (خواہ
وہ کسی بھی مذہب و قوم سے تعلق رکھتا ہو) فراخدلی ورواداری
اور ہر مذہب و قوم کے مذہبی روایات و شخصیات کے احترام کی
پرزور تلقین کی گئی ہے۔ نیز اس سلسلے میں عہد
رسالت کے جو قیمتی ”علمی“ نمونے ہیں وہ ان کے علاوہ ہیں۔
مسلم تاریخ حکمرانی سے امن وامان کے چند
نمونے
امت مسلمہ نے ان
اخلاقی اور قانونی ہدایات اور عہد رسالت کے علمی نمونوں
کو ہر دور میں پوری اہمیت دی اور روئے زمین پر ایک
پرامن قوم کی حیثیت سے اپنی پہچان قائم کی۔
مسلمانوں نے اس مقصد کے لئے غیرمسلموں کے ساتھ بھی فراخدلانہ رویہ
اختیار کیا، ان کے حقوق و جذبات کی رعایت میں کوئی
کسر نہیں چھوڑی اور ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح قیام
امن کا عمل متاثر نہ ہو خواہ اس کے لئے ان کو بڑی سے بڑی قربانی
ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ مسلمانوں کی انہی
کوششوں کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کی صدیوں پرانی تاریخ
میں فرقہ وارنہ فسادات اور خونریز ہنگاموں کا دور دور تک کوئی
نشان نہیں ملتا۔ مسلمانوں کے امن پسند ہونے کی اس سے بڑی
شہادت کیا ہوسکتی ہے؟
اسلامی عہد
حکومت کے مختلف ادوار سے بعض نمونے پیش کئے جاتے ہیں:
عہدصدیقی
عہد رسالت کے بعد
تاریخ اسلامی کا سب سے قیمتی عہد؛ عہد صدیقی
ہے۔ اس عہد کا ابتدائی حصہ اگر چہ ہنگامی حالات سے لبریز
ہے مگر اس کا زیادہ تر تعلق خارجی ہے۔ داخلی طور پر ملک میں
کوئی بدامنی نہیں تھی اور بالخصوص غیرمسلموں کے
ساتھ پوری رواداری اور فراخدلی کا ماحول قائم تھا۔ چنانچہ
حضرت ابوبکر صدیق کے عہد میں جو ممالک فتح ہوئے؛ وہاں غیرمسلم
آبادی کے حقوق کا مکمل لحاظ رکھا گیا۔ حیرہ فتح ہوا تو
وہاں کے عیسائیوں سے یہ معاہدہ ہوا کہ ان کی خانقاہیں
اور گرجا گھر منہدم نہ کئے جائیں گے، ان کا وہ قصر نہیں گرایا
جائے گا جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے مقابلہ میں قلعہ بند ہوتے ہیں،
ان کے ناقوس اور گھنٹے بجانے پر پابندی نہ ہوگی، تہوار کے موقع پر صلیب
نکالنے پر ممانعت نہ ہوگی، اسی معاہدہ میں یہ بھی
تھا کہ یہاں کے ذمیوں کو فوجی لباس کے علاوہ ہر طرح کی
پوشاک پہننے کی اجازت ہوگی بشرطیکہ وہ مسلمانوں سے مشابہت پیداکرنے
کی کوشش نہ کریں۔
آپ کے عہد خلافت میں
ایک غیرمسلم عورت کا ہاتھ ایک مسلمان افسر نے صرف اس جرم میں
کٹوادیا تھا کہ وہ مسلمانوں کی ہجو میں اشعار گاتی تھی۔
حضرت صدیق اکبر نے اس افسر کو تنبیہ فرمائی کہ اگر وہ عورت
مسلمان تھی تو کوئی معمولی سزا دینی چاہئے تھی
اور اگر ذمی تھی تو جب ہم نے اس کے کفر وشرک سے درگذر کیا تو یہ
تو اس سے فروتر چیز تھی۔
عہد فاروقی
حضرت فاروق اعظم کا عہد پوری دنیائے حکمرانی کی
تاریخ میں ایک امتیازی حیثیت کا حامل
ہے۔ ملک کی ترقی و خوشحالی، امن وامان کی بحالی،
داخلی سلامتی، خارجی سیاست، پیداوار میں
اضافہ، ایجادات واکتشافات اور علمی تحقیقات کے لحاظ سے یہ
عہد اپنی مثال آپ ہے۔ حضرت فاروق کے بعد چشم فلک نے اس سرزمین
پر اتنا خوبصورت عہد حکومت دوبارہ نہیں دیکھا جس میں ہر شخص
اپنے کو محفوظ اور ترقی پسند محسوس کرتا تھا اور مسلمانوں کے علاوہ غیرمسلم
اقلیتوں کے ساتھ بھی مکمل رواداری ملحوظ رکھی جاتی
تھی۔
آپ کے عہد میں
بیت المقدس فتح ہوا تو خود حضرت عمر فاروق کی موجودگی میں
وہاں کے لوگوں سے یہ معاہدہ ہوا کہ: یہ وہ فرمان ہے جو خدا کے غلام امیرالمومنین
نے ایلیاء کے لوگوں کو دیا؛ کہ ان کا مال، گرجا، صلیب،
تندرست بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کیلئے ہیں۔ اس طرح
کہ ان کے گرجاؤں میں نہ سکونت کی جائے گی اور نہ وہ ڈھائے جائیں
گے، نہ ان کو اور نہ ان کے احاطے کو نقصان پہنچایا جائے گا، اور نہ ہی
ان کے صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی،
مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہ کیا جائے گا، ایلیا والوں
میں سے جو شخص اپنی جان ومال لے کر یونانیوں کے ساتھ
منتقل ہونا چاہے تو ان کو اور ان کے گرجاؤں اور صلیبوں کو امن ہے؛ یہاں
تک کہ وہ اپنی جائے پناہ تک پہنچ جائے اورجو کچھ اس تحریر میں
ہے اس پر خدا کا، رسول کا، خلفاء کا اور مسلمانوں کا ذمہ ہے بشرطیکہ وہ لوگ
جزیہٴ مقررہ ادا کرتے رہیں۔“ (الفاروق، شبلی ۲/۱۳۷)
ایک مرتبہ
غسان کا نصرانی بادشاہ حضرت عمر سے ملنے آیا تو اتفاقا ایک
اعرابی نے نادانستہ اسے دھکا دیا اس پر بادشاہ نے خفاہوکر اسے
مارا۔اعرابی کی نالش پر حضرت عمر نے یہ فیصلہ سنایا
کہ وہ بادشاہ کو مارے اس پر بادشاہ نے کہا: اے امیرالمومنین! کہیں
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک شخص بادشاہ کو ہاتھ لگائے؟ حضرت عمر نے
جواب دیا:اسلام کا قانون یہی ہے۔ انصاف کے باب میں
اسلام کے نزدیک امیر و غریب، بادشاہ اور رعایا سب برابر ہیں۔
(اسلام کا نظام امن ص:۴۹ مفتی ظفیرالدین
صاحب)
اسی طرح ایک
مرتبہ مصر میں گھوڑوں کی ریس ہورہی تھی حضرت عمرو
بن عاص (جو مصر کے فاتح اوراس کے پہلے اسلامی گورنر تھے) ان کے صاحبزادہ بھی
اس ریس میں شریک تھے۔ مقابلہ میں ایک قبطی
کا گھوڑا ان کے گھوڑے سے آگے بڑھنے لگا تو انھوں نے اس کے گھوڑے کو ایک کوڑا
رسید کیا۔ وہ احتجاجا رک گیا تو انھوں نے اس قبطی
کو ایک کوڑا لگایا اور کہا کہ: میں ایک شریف زادہ
ہوں تم نے مجھ سے آگے بڑھنے کی کوشش کیوں کی؟ قبطی نے اس
واقعہ کا مقدمہ حضرت عمر فاروق کے یہاں پیش کیا۔ آپ نے
گورنر صاحب اور ان کے صاحبزادہ دونوں کو طلب کیا اور فرمایا: تم نے
لوگوں کو کب سے غلام بنالیا ہے؟ حالاں کہ سارے انسان اپنی ماں کے پیٹ
سے آزاد پیدا ہوئے ہیں، پھر آپ نے قبطی کے ہاتھ میں کوڑا
دے کر حکم فرمایاکہ :اس شریف زادہ کے سر پر ویسا ہی پھیرو
جیسا کہ اس نے تمہارے سر پر پھیرا تھا۔“ (خلفاء اربعہ ص۲ مولانا علی میاں ندوی)
حضرت عمر فاروق ہی
کے عہد خلافت کا واقعہ ہے کہ جب ملک شام کے ایک بڑے حصہ پر مسلمان قابض
ہوگئے تو ہاں کے لوگوں نے انطاقیہ کے حکمراں ہرقل کو ایک زبردست فوج
لے کر حمص کی طرف بڑھنے پر آمادہ کیا جہاں حضرت ابوعبیدہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ خیمہ زن
تھے۔ حضرت ابوعبیدہ کو غنیم کے لشکر جرار کی خبر ملی
تو انھوں نے مجلس مشاورت منعقد کیا جس میں یہ رائے طے پائی
کہ حمص کو خالی کرکے دمشق کو محاذ بنایاجائے؛ مگر حمص چھوڑنے سے پہلے
حضرت ابوعبیدہ نے یہ حکم جاری کیا کہ اب وہ اس کے باشندوں
کو دشمنوں سے بچانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس لئے ان سے جزیہ
یا خراج کے نام پرجو کچھ لیا گیا تھا وہ انہیں واپس کردیا
جائے؛ کیوں کہ یہ جزیہ حفاظت کی خاطر وصول کیا جاتا
ہے۔ چنانچہ اہل حمص کو ان کی پوری رقم واپس کردی گئی۔
اس رقم کی واپسی سے اہل حمص بہت متاثرہوئے اور کہا کہ: ہم مسلمانوں کی
فوجوں کے کاندھے سے کاندھا ملاکر ہرقل کی فوج سے آخری دم تک لڑیں
گے۔“ یہودیوں نے بھی توارة کی قسم کھاکر یہی
بات کہی۔ اہل حمص نے مسلمانوں کو دعائیں دیں کہ خدا تمہیں
دوبارہ فتح عطا کرے اوریہاں واپس لائے۔ آج تمہاری جگہ اگر رومی
ہوتے تو وہ کچھ بھی واپس نہ کرتے بلکہ ہماری باقی ماندہ چیزیں
بھی لوٹ لیتے۔“ (فتوح البلدان ج:۱،ص:۱۴۴، الفاروق ج۱،ص:۱۲۷،۱۲۸)
۲۱ھء میں اسکندریہ فتح ہوا
تو وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک تصویر
تھی۔ تصویر اسلام میں ناپسندیدہ امر ہے۔ اس بناء
پر کسی مسلم سپاہی نے اپنے تیر سے تصویر عیسیٰ
کی ایک آنکھ پھوڑ ڈالی۔ اس پر عیسائیوں کو
تکلیف ہوئی، جس کی وجہ سے عیسائیوں نے حضرت عمر و
بن عاص کے پاس مقدمہ کا پھر مطالبہ کیاکہ: حضرت محمد (…) کی ایک
تصویر بناکر ان کو دی جائے؛ تاکہ وہ بھی ان کی ایک
آنکھ پھوڑ ڈالیں؟ حضرت عمرو نے جواب دیا: تصویر کی کیا
ضرورت ہے؟ ہم لوگ موجود ہیں؛ تم جس کی آنکھ چاہو پھوڑ ڈالو!! پھر اپنا
خنجر ایک عیسائی کے ہاتھ میں دے کر اپنی آنکھیں
سامنے کردی۔ یہ سن کر عیسائی کے ہاتھ سے خنجر گرپڑا
اور وہ اپنے دعوی سے یہ کہہ کر دستبردار ہوگیا کہ: جو قوم اس
درجہ دلیر، فیاض، انصاف پسند اور فراخدل ہو اس سے انتقام لینا
بے رحمی اور بے قدری ہے۔“ (خطباب شبلی ص:۷۳،۷۴)
عہد عثمانی
حضرت عثمان غنی کاعہد بھی امن وامان کی بحالی،
مختلف قوموں کے ساتھ رواداری، داخلی سلامتی اور ترقی و
خوشحالی کے لحاظ سے مثالی تھا۔ متعدد ممالک کی داخلی
صورت حال سے باخبر رہنے کیلئے آپ سرکاری وفود بھیجا کرتے
تھے۔ جمعہ کے دن منبر پر پہنچ کر اطراف ملک کی خبریں پوچھتے اور
عام اعلان کرتے کہ: اگر کسی کو کسی سرکاری افسر سے شکایت
ہو تو حج کے موقع پر آکر بیان کرے۔ اس موقعہ پر تمام افسروں کو بھی
فوری طور پرطلب کرلیتے تھے؛ تاکہ شکایتوں کی تحقیقات
ہوسکے۔“ (مسند احمدبن حنبل ص:۷۳)
آپ کے دور میں
نجران کے عیسائیوں کو بعض مسلمانوں سے کچھ شکایات پیداہوئیں
تو آپ نے فوراً ان کی طرف توجہ کی۔ حاکم نجران ولید بن
عتبہ کے نام خصوصی مکتوب تحریر فرمایا اور امن وامان کی
صورت حال بگڑنے نہ دی۔ (کتاب الخراج لابی یوسف،ص:۲۷۶)
عہد حضرت علی
حضرت علی کا
عہد بظاہر سخت انتشار وخلفشار سے پر ہے اور سخت ہنگاموں سے حضرت علی کو فرصت نہ مل سکی مگراس کے باوجود غیرمسلم
اقلیتوں، اسی طرح غیرجانبدار طبقات کی سلامتی کے
باب میں کسی جزء پر انگلی رکھنے کی گنجائش نہیں
ہے۔ آپ کے عہد میں ایک گورنر عمروبن مسلم کی سخت مزاجی
کی بعض شکایات آپ کو ملیں تو آپ نے فوراً اس کے ازالہ کی
طرف توجہ فرمائی۔
اسی طرح غیرمسلموں
کی آب پاشی کی ایک نہر پٹ گئی تھی حضرت علی
نے وہاں کے گورنر طرفہ بن کعب کو لکھا کہ: اس نہر کو آباد کرنا مسلمانوں کا فرض
ہے۔ میری عمر کی قسم! مجھے اس کا آباد رہنا زیادہ
پسند ہے۔ (تاریخ اسلام،ج:۱، ص:۳۶۸ شاہ معین الدین)
یہ تو خیر
خلفائے راشدین کا عہد تھا جس سے بہتر اسلامی حکمرانی کا نمونہ
ملنا مشکل ہے؛ لیکن بعد کے ادوار میں بھی مسلم حکمرانوں نے غیرمسلموں
کے ساتھ رواداری اور مروت کی اس روایت اور نظام امن کے اس سلسلے
کو باقی رکھا اور تاریخ حکمرانی میں اس کی زریں
مثالیں قائم کیں۔
محمد بن قاسم
خود ہمارے ہندوستان
میں مسلم حکمرانی کا دور ۷۱۲/ میں شروع ہوا محمد بن قاسم ۷۱۲/
میں
پہلی بار سند آئے ان کی عمر اس وقت سولہ(۱۶) برس تھی۔ انھوں نے سندھ
آکراپنی پالیسی کا اعلان اس طرح کیا: ”ہماری حکومت
میں ہر شخص مذہب میں آزاد ہوگا، جو شخص چاہے اسلام قبول کرلے جو چاہے
اپنے مذہب پر رہے، ہماری طرف سے کوئی تعرض نہ ہوگا۔“
محمد بن قاسم صرف
ساڑھے تین سال ہندوستان میں ٹھہرے، بہت سے مندر بنوائے بہت سوں کی
مرمت کرائی، مندروں کو جاگیریں دیں اور برہمنوں اور پجاریوں
کے وظائف بحال رکھے، ان کے دور حکومت میں بڑے بڑے عہدے غیرمسلموں کے
پاس تھے۔ (ہندوستان میں اسلام، جناب عبدالباری ایم، اے)
تاریخ کے
مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد بن قاسم کی عدل پروری اور محاسن کا
رعایا پر اتنا اثر پڑا کہ جب وہ سند سے رخصت ہوئے تو ان کی یاد
میں ایک دھرشالہ تعمیر کیاگیا کچھ ہندوؤں اور
بودھوں نے محمد بن قاسم کا اسٹیچو بناکر ان کی پرستش شروع کردی۔
(آئینہٴ حقیقت۱/۱۰۱ بحوالہ اسلام امن وآشتی کا
علمبردار ص:۷۳)
سلطان محمود غزنوی
سلطان محمود غزنوی
کے عہد کو غیرمسلموں کے خلاف شدت پسندی کے عنوان سے بدنام کیاجاتا
ہے۔ سومناتھ مندر کا حوالہ دے کر محمود کو متعصب ثابت کیاجاتا ہے جبکہ
سومناتھ کا مندر اس وقت محمود کے مخالفین کی سرگرمیوں کا مرکز
تھا، سارے شکست خوردہ راجاؤں نے وہاں اپنا مرکز بنالیا تھا۔
محمود اگر ایسا
ہی کٹرپنتھ تھا تواس دور میں ہزاروں مندر کیوں محفوظ رہے؟ اور
جو غیرمسلم تھے ان کو بزور اس نے مسلمان کیوں نہیں بنالیا
تھا؟؟
محمد غزنوی کے
یہاں ہندوؤں کی باقاعدہ فوج موجود تھی جس میں ”تلک سندر
اور بیجناتھ“ جیسے جنرلوں کے نام کافی نمایاں ہیں،
محمود غزنوی کے بیٹے مسعود کو پنجاب میں امن قائم کرنے کیلئے
اپنے ہی بھائی سے جنگ کرنا پڑی تو اس نے تلک سندر کی
سرکردگی میں اپنی فوج بھیجا ۔ (مذہبی رواداری،
بحوالہ پالی ٹکس ان پری مغل ٹائمس ص:۴۵،۴۶)
غیاث الدین بلبن
غیاث الدین
بلبن کا عہد (۱۲۶۵ تا ۱۲۸۶/)
ملک
کی ترقی و خوشحالی، ہندومسلم تعلقات اور قیام امن کے باب
میں کافی مثالی ہے۔ اس دور کی رعایا پروری،
عدل گستری اور رواداری کا اندازہ سنسکرت کے اس کتبہ سے بھی ہوتا
ہے جو ”پالم“ میں پایاگیا اور دہلی کے آثار قدیمہ
کے عجائب گھر میں موجود ہے؛ اس میں بلبن کے متعلق لکھا ہے:
”جب سے اس سلطان ذیشان
نے دنیا کا بوجھ اپنے کندھوں پر لیا ہے؛ دنیا کو سہارا رکھنے
والے شیش ناگ دھرتی کے بوجھ سے سبکدوش ہوبیٹھے ہیں اور
وشنو بھگوان نگہبانی کا خیال چھوڑ کر اطمینان سے دودھ کے سمندر
پر محواستراحت ہے۔“ (دیکھئے: ہندوستان کے معاشرتی حالات ازمنہٴ
وسطی میں ازعبداللہ یوسف علی ص:۹۸)
علاء الدین خلجی
علاء الدین
خلجی کو ایک متعصب حکمراں سمجھا جاتاتھا لیکن اس نے ہندوؤں کے پیشواؤں
کی بڑی عزت و توقیر کی۔ کہا جاتا ہے کہ فرقہٴ
دیگر کے پیشوا ”پورناچندر“ اور ”سوئمبریوگی“ کے ”رام چندر
سوری“ کی پذیرائی سلطان کے یہاں بہت تھی۔
(اسلام امن وآشتی کا علمبردار ص:۷۴ حیدرآباد)
مغلیہ عہد
ظہیرالدین
بابر نے ہندوستان میں مغلیہ حکومت کی بنیاد ڈالی۔
بابر مذہبی رواداری کی ایک اعلیٰ مثال تھا اس
کے بارے میں موٴرخین کی شہادت ہے کہ اس نے ہندو عوام کی
دلداری کا ہمیشہ خیال رکھا اس نے مرض الموت میں اپنے بیٹے
ہمایوں کو وصیت کی: اے فرزند! ہندوستان کی سلطنت مختلف
مذاہب سے بھری ہوئی ہے خدا کا شکر ہے کہ اس نے تم کو اس کی
بادشاہت عطا کی۔ تم پر لازم ہے کہ اپنے لوح دل سے تمام مذہبی
تعصبات کو مٹادو اور ہر مذہب کے طریقہ کے مطابق انصاف کرو۔“ (حوالہٴ
بالا)
بابر کے بارے میں
پروفیسر شری رام شرن شرما لکھتے ہیں:
”ہمیں کوئی ایسی شہادت دستیاب نہیں
ہوئی کہ بابر نے کسی مندر کو منہدم کیا ہو اور کسی ہندو
کو ہندو ہونے کی وجہ سے ایذاء دی ہو۔“ (مغل امپائر آف انڈیا،ص:۵۵)
پروفیسر رام
پرساد کھوسلہ نے لکھا ہے:
”بابر نمایاں طور پر مذہبی تعصب اور تنگ نظری سے پاک
تھا“ (مغل کنگ شپ اینڈ نوبلٹی،ص:۲۰۷)
بابر نے رانی
چندیری کو اپنی بہن بنایا تھا بعد میں ہماریوں
نے بھی اس رشتے کو نبھایا اور رانی چندیری کی
مدد کیلئے وہ باقاعدہ لشکر لے کر راجپوتانہ گیا۔ (مسلمانوں کے
بارے میں غلط فہمیوں وضاحتوں کا یونیورسل پیس فاؤنڈیشن،ص:۱۶)
بابر کے بعد دوسرے
حکمرانوں نے بھی اس اعلیٰ روایت کو برقرار رکھا اور کبھی
بھی ملک میں نقص امن کی صورت پیدا نہیں ہونے دی۔
اورنگ زیب عالمگیر
اورنگ زیب کو
بدنام کرنے کے لئے طرح طرح کے افسانے تراشے گئے؛ لیکن آج تک وہ وثیقے
محفوظ ہیں جن کے ذریعہ اورنگ زیب نے ہندوؤں کو بڑی بڑی
جاگیریں دیں ، اورنگ زیب کے سپہ سالار غیرمسلم تھے
اورنگ زیب کی اصل طاقت راجہ جے سنگھ تھا۔“
بنگالی موٴرخ
سرجادوناتھ سرکار نے ”تاریخ اورنگ زیب“ میں اعتراف کیا
ہے:
”اورنگ زیب کی تاریخ ہندوستان کی ۶۰ سال کی نہایت شاندار تاریخ
ہے۔ اس نے کبھی ہندو کو جبراً مسلمان نہیں بنایا، نہ امن
کی حالت میں کسی ہندو کی جان لی۔“ (غلط فہمیاں
وضاحتیں،ص:۱۶)
”تاریخ ہند“
کے مصنف رام پرساد کھوسلہ لکھتے ہیں:
”اورنگ زیب نے ملازمت کے لئے اسلام کی شرط کبھی نہیں
لگائی۔ بادشاہ کو اسلام کا محافظ ضرور سمجھا جاتاتھا مگر غیرمسلم
رعایا پر کوئی جبر اور دباؤ نہیں تھا، بابر سے اورنگ زیب
تک مغلوں کی تاریخ تنگ نظری اور فرقہ پرستی سے پاک
ہے۔“ (حوالہٴ بالا)
سلطان ٹیپوشہید
مزید آگے بڑھ
کر جب ہم ماضی قریب کے مسلم حکمرانوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو
سلطان ٹیپوشہید ان میں سرفہرست نظر آتے ہیں۔ سلطان
ٹیپو ایک وطن پرور اور اسلام نواز بادشاہ تھا؛ مگراس کے عہد میں
بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے ہندوؤں، برہمنوں اور غیرمسلموں
کو بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا اور انہیں اعزاز بخشا۔ ٹیپوسلطان
کا وزیراعظم ایک برہمن تھا جن کا نام ”پونیا“ (Punnayya) تھا۔ اور
ٹیپو کا فوجی سپہ سالار بھی ”کرشنا راؤ“ نامی برہمن تھا
اور ٹیپو ایک سوچھپن (۱۵۶) مندروں کو سالانہ امداد دیا کرتا
تھا۔ (مذہبی رواداری،۳/۳۱۷، اسلام امن وآشتی کا
علمبردار،ص:۷۵)
دکن کا اسلامی عہد
* دکن میں مسلم حکمرانوں کا عہد
بھی اس سلسلے میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔ خوشحالی،
فارغ البالی اور امن وامان کے لحاظ سے یہ پورا دور مثالی مانا
جاتا ہے۔ بلالحاظ مذہب وملت، ہندو، مسلم، پارسی، سکھ، عیسائی
سب اس عہد میں مل جل کر رہتے تھے۔
* قطب شاہی عہد کے فرمانروا سلطان
ابراہیم قطب شاہ کی رواداری کے متعلق ڈاکٹر حمیدالدین
شرفی لکھتے ہیں:
”سلطان ابراہیم بڑے عزم والا تھا، اس نے گولکنڈہ کو استحکام بخشا، اس
نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان محبت و بھائی چارگی کو فروغ دیا۔“
(تاریخ حیدرآباد،ص:۸)
اسی طرح سلطان
ابوالحسن تاناشاہ نے غیرمسلموں کو بڑے بڑے عہدوں سے سرفراز کیا
”مادنّا“ (جو ایک برہمن تھا اس) کو وزیراعلیٰ بنایا
اوراس کے بھائی ”اِکنّا“ کو فوج کی کمانڈ ری کا عہدہ سونپا اور یہ
دونوں بھائی چند دنوں میں سلطنت کے مختار کل بن گئے۔ (تاریخ
حیدرآباد،ص:۱۰)
رواداری کا یہ
ماحول سلطان ابوالحسن تاناشاہ کے دور حکومت میں پورے آب و تاب کے ساتھ پروان
چڑھتا نظر آتا ہے، زندگی کا کوئی شعبہ اورحکومت کا کوئی محکمہ ایسا
نہ تھا جس میں ہندو مسلمان دوش بدوش کام نہ کرتے ہوں، دونوں اعلیٰ
عہدوں پر فائز تھے، دونوں کو برابر کا مرتبہ حاصل تھا۔“ (آصف سابع میر
عثمان علی خان اور ان کا عہد،ص۲۹، از طیبہ بیگم)
* قطب شاہی عہد کے بعد دکن میںآ
صف جاہی سلطنت کی بنیاد پڑی اس عہد میں امن وامان
اور مذہبی رواداری کو جو فروغ ہوا اس کی نظیر نہیں
ملتی۔ یہاں ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل تھی،
مسجد، مندر، گرودوارے، کلیسا، اور آتش کدے سبھی کو عزت کی نظر
سے دیکھا جاتا تھا، اذان کے ساتھ مندر کے ناقوس کی گونج بھی
سنائی دیتی تھی، آتش کدوں میںآ گ دہکتی اور
گرجاؤں میں گھنٹے بجتے۔ (حوالہٴ بالا،ص:۳۲)
آصف جاہ سابع میر
عثمان علی خاں نے اس باب میں ایسی مثال قائم کی جس
کا متعصب سے متعصب شخص بھی انکار نہیں کرسکتا۔ فرقہ وارانہ ہم
آہنگی اور خوشحالی زندگی کے ہر شعبہ میں نمایاں تھی،
مسلمانوں کے ساتھ ہندو قوم کو بھی اعلی عہدے حاصل تھے۔ ان کے
دورحکومت میں مہاراجہ ”کشن برشاد“ وزیر اعظم تھے۔ وینکٹ
راماریڈی، کوتوال بلدہ مسٹر تارا پوروالی مشیرمال حضور
نظام تھے۔ راجہ نرسنگ راج مہتمم سیونگ بینک نظامت ٹپہ
تھے۔ جہاں آصف سابع نے مسجدوں، عاشورخانوں، درگاہوں کی امداد کی
وہیں مندروں، گرودواروں، کلیساؤں اور آتش کدوں کی مالی سرپرستی
بھی کی۔ پارسیوں کو نوروز کی، عیسائیوں
کو کرسمس کی، سکھوں کو گرونانک کے جنم دن کی، اور ہندوؤں کو دیوالی،
دسہرہ اور دوسرے تہواروں کی،اور مسلمانوں کو عیدوں اور میلادوں
کی تعطیل ملتی تھی۔ دور عثمانی کی
رواداری کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت حکومت
کے زیرنگرانی ۲۷مساجد، ۱۰ عاشور خانے، ۱۲ الاوے، ۲۷ درگاہیں، ۱۳ تکٹے، ۲۱ مندر، ۱۲ مٹھ، دو گرودوارے اور ۳ آتش کدے تھے۔“ (آصف سابع میر
عثمان علی خاں ص:۳۳، ۱۰۱)
غرض! اسلامی
حکمرانی کی پوری تاریخ امن وامان اور رواداری کے
واقعات سے لبریز ہے۔ دنیا کی کوئی تاریخ ایسی
شاندار مثالیں پیش نہیں کرسکتی۔ آج ضرورت ہے کہ دنیا
کی حکومتیں اس سے سبق حاصل کریں اور ان خوبصورت نمونوں کو پیش
نظر رکھ کر ایک خوبصورت سماج پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
اقبال نے کہا تھا۔
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں
بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے
ہندوستاں ہمارا
$ $ $
------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1، جلد: 92 ، محرم الحرام 1429 ہجری مطابق
جنوری 2008ء